یہ پچھلے سال کی بات ہے مجھے شناختی کارڈ بنوانے کی ضرورت پیش آئی۔ ہمارے ہاں نادرا کے دفاتر میں شناختی کارڈ کیلئے بہت لمبی لمبی قطاریں بنتی ہیں اور گھنٹوں باری کے انتظار کیلئے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ میں بھی تقریباً سہ پہر ساڑھے تین بجے گیا اور اللہ کا نام لے کر قطار میں کھڑا ہوگیا۔
انسان کی فطرت ہے کہ جب مصیبت پورے زوروں پر ہوجاتی ہے اور آدمی بے بس ہوجاتا ہے تو پھر اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ میں بھی جب کھڑے کھڑے تھک کر چور ہوگیا اور کمر کے مہرے جواب دینا شروع ہوگئے تو میں نے سورة القریش کا ورد شروع کردیا۔ قطار کے بڑھنے کی رفتار جو کہ کچھوے کی رفتار سے بھی دس گنا آہستہ تھی وہی رہی۔ مگر اس کا ایک کرشمہ ہوا۔ دفتر کے بند ہونے کا وقت دس بجے کا تھا۔ جوں جوں وقت قریب آتا جارہا میری حالت مزید بری ہوتی جارہی تھی۔ میں نے سورة قریش کا ورد مسلسل جاری رکھا۔ الحمدللہ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ آخری ٹوکن تھا۔ پورے دس بجے تھے اور میں کھڑکی پر پہنچ گیا اور بآسانی سارے معاملات ہوگئے۔ مجھ سے جتنے پیچھے کھڑے تھے بے چارے سارے گالیاں دیتے رہ گئے چونکہ وقت ہی ختم ہوچکا تھا۔
کم و بیش چار سال قبل کی بات ہے۔ عید کا دن تھا ہم میانی صاحب قبرستان سے فاتحہ خوانی کرکے گھر واپس جارہے تھے۔ ہم گاڑی میںچھ افراد تھے اور ہمارے ماموں گاڑی چلارہے تھے۔
ہوا کچھ اس طرح کہ فٹ پاتھ کے کٹ پر سے ہم نے گاڑی موڑنی تھی اور ہم سے آگے ایک گاڑی اور بھی تھی۔ رش کم ہوا‘ ہمارے آگے والے تھوڑا سابڑھے۔ پھر ہم نے گاڑی بڑھائی انہوں نے جو ایک دم بریک لگائی تو ماموں نے بھی بریک لگانا چاہی مگر اللہ کا کرنا کہ پاوں بریک پر پڑنے کی بجائے ریس پر پڑگیا اور ہماری گاڑی ان کی گاڑی میں کافی رفتار سے جاکر لگی اور ان کا بمپر پچک گیا۔ انہوں نے ہماری گاڑی ایک طرف کروائی۔ ایک طرف کروا نے بعد اچانک اگلی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر سے ایک نوجوان نکلا اور اس نے پستول نکالا تو میرا اور بھائی کا سانس تو اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
خیر ہمیں واپس گاڑی کے اندر بٹھا دیا گیا اور ہم نے سورة قریش کا ورد شروع کردیا۔ انہوں نے ادھر ادھر فون ملائے اپنے بڑوں کو بلانے کیلئے دو لوگ بھیجے۔ ہم مستقل سورة قریش بھی پڑھ رہے تھے اور ڈر بھی بہت لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بڑی گاڑی رکی۔ اس کے اندر سے دو گارڈ نکلے۔ ہاتھوں میں کلاشنکوف پکڑی ہوئی فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔ باہر ایک تگڑا کلین شیو آدمی نکلا اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ”کیا ہوا‘ کیا ہوا؟“ انہوں نے گاڑی وغیرہ دکھائی اور غلطی بھی ہماری تھی ہم نے تسلیم کیا۔ تھوڑی دیر بعد خود ہی کہنے لگے ”اوئے جانے دو یار جانے دو‘ صوفی صاحب ہیں“ (چونکہ سب نے داڑھی رکھی ہوئی ہے اور ٹوپی پہنی ہوئی تھی) اس کے ساتھی اس کا منہ تکنے لگے اور ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے واپس آئے کہ سورة القریش کی برکت سے اللہ نے کتنی بڑی مصیبت سے بچالیا ورنہ نقصان کم و بیش 15 سے 20 ہزار تھا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں